بجٹ میں عوام کو کہیں بھی کوئی رلیف نہیں دیا گیا: فیروزہ لاشاری
بجٹ مالی سال میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو مجموعی طور پر 3412 ارب روپے منتقل کیے جانے کا تخمینہ ہے۔ اس قابل تقسیم محصولات میں ہے پنجاب کو 1691 ارب روپے، سندھ کو 848 ارب روپے، خیبر پختونخوا کو 559 ارب روپے اور بلوچستان کو 313 ارب روپے دیے جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یوں صوبوں کو پیسوں کی ترسیل کے بعد وفاقی حکومت کے پاس 4497 ارب روپے رہ جاتے ہیں جن سے ملک کو چلایا جائے گا۔ موجودہ مالی سال میں ہونے والے اخراجات کی جانب نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سال مجموعی طور پر 3060 ارب روپے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کیے جائیں گے، جن میں سے اندرونی قرضوں پر سود کی مد میں 2757 ارب روپے جبکہ بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں 302 ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔ اسی طرح وفاقی سول حکومت کو چلانے کے اخراجات کی مد میں 479 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پورے بجٹ میں عوام کو کہیں بھی کوئی رلیف نہیں دیا گیا۔ سرکاری بجٹ صرف سرکار تک محدود رکھا گیا ہے جس میں ملٹری پینشن 360 ارب اور سول پینشن 120ارب ہے جو سول ملازمین سے کہیں زیادہ ہے سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کیلئے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آبی وسائل ریلوے سب کو ملاکر حکومت اگر تمام تر ٹیکس اور نان ٹیکس وصولیوں کو مد نظر رکھے تو موجودہ مالی سال میں 7909 ارب روپے کی وصولی کرنے کا تخمینہ کر رہی ہے، جس میں حکومت ٹیکس وصولیوں کی مد میں 5829 ارب روپے جبکہ نان ٹیکس وصولیوں کی مد میں 2080 ارب روپے اکھٹا رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اب اگر حکومت اپنی سالانہ وصولیوں جو کہ 4497 ارب روپے ہوں گی اور اپنے اخراجات جن کا تخمینہ 7523 ارب روپے لگایا گیا ہے کا موازنہ کرے تو 3990 ارب روپے کا شارٹ فال یا فرق بنتا ہے، جس کا بندوبست حکومت قرض لے کر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے غریب طبقا اور غریب ہوگا اور امیر پہلے سے زیادہ امیر ہوگا بھوک بدحالی زیادہ ہوگی ملکی وسائل ایم ایف کے پاس چلے جائیگے اور عوام خون پسینے سے قرض ادا کرتا رہے گا اور حکومت احساس پروگرام جو ایک بھیک ڈھونگ پروگرام ہے حکومت عوام کو اس کے پیچھے لگانا چاہتی ہے لیکن عوام اپنا برابری کی بنیاد پہ حق چاہتی ہے