ببول کے درخت پر گلاب نہیں اگتے

ڈاکٹر اصغر دشتی

اردویونیورسٹی (عبدالحق کیمپس) میں کلیہ معارف اسلامیہ کے خاتمہ اور دوران سمسٹر معاہداتی اساتذہ کے تقررنامے منسوخ کرنا وائس چانسلر کی آمرانہ پالیسیوں کی عکاس ہے۔ اگر فرد واحد یعنی وائس چانسلر کو ہی یا ان کی ایماء/ احکامات پر چند مخصوص منظورنظر افراد پر مشتمل کمیٹی کو ہی یونیورسٹی کے انتظام و انصرام اور سیاہ و سفید کا مالک بنالیا گیا ہے تو میرا خیال ہے کہ پھر دستوری اداروں کے اجلاس کا تردد ہی کیوں؟ پھر ان نام نہاد دستوری اداروں کے وظائف کی کیا اہمیت؟ (واضح رہے کہ مینیجمنٹ کمیٹی وائس چانسلر کی منظوری اور صوابدید کے مطابق ہی کام کرتی ہے )۔
یونیورسٹیوں میں نئے شعبہ جات اور کلیات قائم کیے جاتے ہیں نہ کہ انہیں بند کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کیمپس میں صدورشعبہ جات کے اجلاس کے بعد جو روداد جاری کی گئی اس میں کیے جانے والے فیصلوں کے مطابق جن شعبہ جات میں داخلے25 سے کم ہو گے وہاں پروگرام شروع نہ کیا جائے۔ یعنی دیگر الفاظ میں شعبہ جات کو بند کردیا جائے۔ یہاں پر بنیادی سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی میں داخلے کم کیوں ہورہے ہیں؟
کیا یہ بات حقیقت نہیں کہ اسلام آباد کیمپس اسلام آباد کے ایک دور افتادہ گاؤں اور نسبتاً ایک پسماندہ علاقہ میں واقع ہے؟
اسلام آباد کیمپس کی اس غیر موزوں لوکیشن یا اس کو اسی جگہ شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا اساتذہ کا تھا؟
کیا اساتذہ سے پوچھ کر شہر سے دور ایک جنگل نما علاقے میں کیمپس قائم کیا گیا؟
اسلام آباد کیمپس کی موجودہ لوکیشن پر شفٹنگ کا فیصلہ ایک انتہائی غلط فیصلہ تھاجس سے داخلوں میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے نیز شفٹنگ سے ایوننگ پروگرام تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ لہٰذا وہ غلط پالیسیاں جن سے داخلوں کی تعداد کم ہوئی ان میں عام اساتذہ کا کوئی عمل دخل نہیں نہ ہی انہیں قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔اور جس طرح اردو یونیورسٹی میں طلبہ کو ٹریٹ کیا جاتا ہے جس طرح طلبہ ایک مارک شیٹ کے حصول اور کسی اعتراض کو دور کرنے کے لیے دربدر اور خوار ہوتے ہیں تو کیا یہ ماحول طلبہ دوست ماحول ہے؟
اردو یونیورسٹی میں طلبہ کو ایسی کون سی سہولیات میسر کی جارہی ہیں کہ وہ دیگر تمام یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر اردو یونیورسٹی کا ہی رخ کریں؟
سالہا سال سے اردو یونیورسٹی اپنے فارغ التحصیل طلبہ کا ایک کانووکیشن تک منعقد نہیں کرواسکی۔
جناب وائس چانسلر!
شعبہ جاتی داخلوں میں کمی کی اصل وجوہات کا تعین کیا جائے نا کہ ان شعبہ جات کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ ہر مسئلہ کا ذمہ دار استاد نہیں ہوتا۔ ہر دفعہ مجرم استاد نہیں ہوتا۔ ہر ناکامی استاد کے گلے میں نہیں ڈالی جاسکتی۔
بحیثیت سربراہ آپ کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ آپ کہاں ناکام ہیں؟
وفاقی وزارت تعلیم کی کیا کوتاہی ہے؟
ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کیا قصور ہے؟
چانسلر آفس کیا کررہا ہے؟
باہر سے نامزد اراکینِ سینیٹ کی کیا کوششیں و کاوشیں ہیں؟
کیا کبھی بیرونی اراکینِ سینیٹ کی کارکردگی اور قابلیت پر سوال کیا گیا؟
کیا کبھی ایچ ای سی سے جوابدہی کی گئی؟
کیا کبھی چانسلر اور پرو چانسلر کے غیر سنجیدہ رویہ، عدم دلچسپی اور مسائل کو حل نہ کرنے کی صلاحیت پر سوال کیا گیا؟
کیا کبھی ان طاقتور افراد کا بھی محاسبہ کیا جاسکے گا؟
یا صرف اور صرف عام اساتذہ کے سر ان تمام ناکامیوں کا بوجھ ڈال دیا جائے گا جن کا کام محض تدریس ہے؟
یا محض غریب غیر تدریسی عمال کو نوکریوں سے نکالنا مسئلے کا حل ہیں ؟
کیا صرف شوکاز نوٹسز اور انکوائری کمیٹیوں سے فنڈز حاصل ہو جائیں گے ؟
کیا اساتذہ و ملازمین کی زبان بندی سے اردو یونیورسٹی میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی ؟
آج اگر اردو یونیورسٹی ناکام ہے تو یہ اجتماعی ناکامی ہے اور اس ناکامی کے اصل ذمہ دار پالیسی میکرز ہیں نہ کہ عام اساتذہ۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی شعبہ یا کلیہ کی بندش کے فیصلہ کو درست نہیں مانتا اور اس فیصلے کی مخالفت کرتا ہوں کیونکہ مسائل اور خرابیوں کے حوالہ سے یہ انتہائی غلط تشخیص ہے۔ یہ مسائل کو حل کرنے کا ایک موضوعی (Subjective)رجحان یا زاویہ نگاہ ہے۔ ہمارا فیصلہ سازی کا انداز معروضی ہونا چاہئے۔ ذاتی پسند ناپسند اور خواہشات کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اردو یونیورسٹی کی ماضی میں جابجا پڑے ننگے حقائق بڑی تلخ کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔

Back to top button