علم بیچو نہیں حاصل کرو

علم بیچو نہیں حاصل کرو

نعمان علی

پاکستان میں تعلیم جیسے زیور کو ایسے بیچا گیا ہے۔جیسے گلی میں ٹین ڈبے والے کا انتظار کیا جاتا ہے۔اسکولوں سے شروع کریں یونیورسٹیز تک تعلیم کچرے کا ڈھیر دکھائی دیتی ہے۔سرکاری اسکولوں میں طلبہ سے اتنا ظلم ہے کہ اکثر اسکولوں میں باتھ روم نہیں پینے کے لئے پانی تک میسر نہیں طلبہ کولر گھر سے لے جاتے ہیں جس کا فائدہ نہ صرف طلبہ کو ہے بلکہ اساتزہ کو بھی میسر ہے۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں جہاں طلبہ کو اساتزہ تعلیم نہیں دیتے مگر طلبہ اساتزہ کو پانی میسر کرتے ہیں۔کس ملک میں ایسا ہوتا ہے جہاں طلبہ اساتزہ کو محبت دیتے ہوں اور اساتزہ سرکار کے ساتھ طلبہ کے دشمن ہوں۔بڑے دکھ کی بات یہ بھی ہے صرف پاکستان میں ہی ایسا ہوتا ہے۔خاص طور پر سندھ میں جہاں سالوں سے اسکولوں کی عمارتیں تباھ بھی ہیں اور لاوارث بھی بجیٹ کس کے پیٹ بھر رہی ہے کچھ معلوم نہیں اور یہ آج کل کی بات نہیں یہ کئی سالوں سے نغمے چل رہے ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان نغموں کے گلوکار نہیں ہیں۔اگر ہم سندھ کے گاؤں میں دیکھیں تو اکثر بچے بغیرعمارتوں کے پڑھتے ہیں۔شاید اس لئے بھی احساس نہیں وہاں وزیروں مشیروں سرداروں جاگیرداروں کے بچے نہیں پڑھتے اس لئے وزرا ء سوچتے ہیں غریبوں کے بچے پڑھ کر اپنا مستقبل سنوارلیں ہوسکتا ہے ہماری محنت پرپانی پھیر دیں اس خوف سے اسکولوں کی عمارتیں تعمیر نہیں ہو رہی ہیں۔روزانہ صحافی بھائی یہ خبر ضرور چھاپتے ہیں فلاں گاؤں کے فلاں اسکول کی چھت گرنے سے دو بچے جابحق ہوئے یہ اسکول کی چھت گرنے سے دو بچیاں ہلاک ہوئی یہ خبر کیوں نہیں چھاپتے فلاں گاؤں کے فلاں اسکول میں پانی میسر نہیں ہے فلاں اسکول میں باتھروم نہیں ہے فلاں گاؤں میں بچے زمین پر بغیر عمارت کے پڑھ رہے ہیں مگر افسوس صرف مذمت کی جاتی ہے شاید ان بنیادی مسائل کو ایوانوں تک پہنچانے کے لیے صحافی بھائیوں کو تکالیف ہوتی ہے۔ہمیں یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ انہی مسائل کے خوف سے کئی والدین اپنے بچے تعلیم سے محروم کرتے ہیں مگر ان مسائل پر بات نہیں کرتے سمجھوتا ضرور کرتے ہیں جوان کے بچوں کے مستقبل کا دشمن بھی ہے ور ان کا بھی دشمن ہے اس دشمن کو مات نہیں دیتے گلی گلی کونا کونا سرمایادری کے دوکانات کھلتے دیکھ سکتے ہیں پرائیویٹ اسکول کھلتے جائے مگر ہم خاموشی سے دیکھتے رہیں گے جن کی فیس آسمانوں کو چوم رہی ہوتی ہے جتنا زیادہ اسکول کی ڈیکوریشن اچھی ہوتی ہے اتنی ہی فیس اچھی ہوتی ہے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم نہیں تعریف دیکھی جاتی ہے ہم اپنے حق پر ڈاکا لگتے دیکھتے رہتے ہیں اورکہتے رہتے ہیں یہ اسکول کتنا اچھا ہے کاش ہماری اتنی ہمت ہوتی ہم اپنے بچوں کو یہاں تعلیم دلواتے سرکار ی اسکولوں کو بہتر بنوانے کی کوشش نہیں کریں گے اپنے حق پر ڈاکا نہیں روکیں گے جو کروڑوں روپے اسکولوں کی بجیٹ پیٹ میں ڈال رہیں ہیں ان کے پیٹ نہیں پھاڑیں گے ان کے خلاف کھڑے نہیں ہوں گے ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے ان کے دکانوں کی تعریف کرتے رہیں گے غریب تو ہمیشہ خاموشی میں مار کھاتے ہیں کیوں کے ان کو ڈرانے والے بہت ہیں مگر مستقبل کے دشمنوں کے ساتھ بغاوت کرنا سکھانے والا کوئی نہیں ڈر کا ٹوڑ سکھانے والا کوئی نہیں اگر گلی گلی کونا کونا اسکولوں کے نام پے سرمایاداری کے دوکان نا ہوتے توشایدسرکاری اسکو ل آج کس حد تک بہتر ہوتے اور والدین مایوس ہو کر چھوٹے چھوٹے پھولوں جیسے مہکتے بچوں کو کہیں کار والے مستری کے پاس تو کبھی کہیں نائی والے کے پاس تو کبھی کہیں بھیک مانگنے تو کبھی کسی کے گھر میں پسینا بھانے نا بھیجتے اس قدرسرمایاداری بڑھ گئی ہے ہر کام میں سرمایاداری چھائی ہوئی ہے مارکیٹوں میں وسائل میں ملک میں نقصانات میں ملک کے فوائد میں سرمایاداری کا مثال نہیں دے سکتا کیوں کہ ملک کے مفاد میں سرمایاداری کی بات کرنا بیوقوفی ہے سرمایادار جاگیردار وڈیرے ہمارے مستقبل کے دشمن ہیں جو لوگ ہمارے مستقبل کے دشمن ہوں وہ لوگ ہمارے ملک کے خیر خواہ کیسے ہوسکتے ہیں؟کیوں کہ ہمارے بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں اور ایسے ہی ہمارا مستقبل ہی صحیح معٰنی میں ہمارے ملک کے محافظ ہوسکتے ہیں جو لوگ ہمارے متقبل کے خیر خواہ نہیں ہیں وہ لوگ ہمارے ملک کے خیرخواہ کیسے ہوسکتے ہیں۔

میرے استاد محترم اعجاز احمد منگی اکثر مجھے کہتے ہیں!

بیٹا حق مانگ کے نہیں چھین کے لینے پڑھتے ہیں!

میں نے کچھ وقت پھلے ایک نظم پڑھی تھی وہ آپ کے غوش گذار کرتا ہوں۔۔۔

اے میرے دیس کے لوگوں

شکایت کیوں نہیں کرتے؟

تم اتنے ظلم سہ کر بھی

بغاوت کیوں نہیں کرتے؟

یہ جاگیروں کے مالک

اور لٹیرے کیوں چنے تم نے؟

تیرے اوپر تیرے جیسے

حکومت کیوں نہیں کرتے؟

یہ بھوک افلاس

تنگدستی تمہارا ہی مقدر کیوں؟

مقدر کو بدلنے کی

تم جسارت کیوں نہیں کرتے؟

میرے منصف تمہارے فیصلوں سے

ارے مجھے کیا حاصل

جو میرا کیس ہے

اس کی تم سماعت کیوں نہیں کرتے؟

اگر تسلیم کرتے ہو

میری باتیں مدلل ہیں۔۔۔

میری باتیں مدلل ہیں۔۔۔

تو پھر میرے موقف کی

تم حمایت کیوں نہیں کرتے؟

تعلیمی جگہوں سے ہزاروں اربوں لاکھوں خاندانوں کو امیدیں ہوتی ہیں ہر گھر کے محلے میں فیملیز جب اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں اس وقت اپنے خیالوں کا اظہار کچہ یوں کرتے ہیں میرا بچہ یا میری بچی بڑی یابچہ بڑا ہوکر انجنیئر بنے گا یہ بنے گی ہمارے بچے ڈاکٹر بنیں گے وغیرہ وغیرہ سوچیں اس ایک ماں کی آنچل میں کیا خوشی ہوتی ہوگی جو یوں ہی آسانی سے گنوا دی جاتی ہے جیسے ہر سال سمندر میں کراچی کاکچرہ اٹھا کر پھینکاجاتا ہے۔ایسے ہی دیکھا جائے تو علم بھی سمندر ہے جس کی کوئی حد نہیں سندھی میں ایک کہاوت ہے!

(علم بڑی طاقت ہے)یہ کہاوت تب حقیقت ہوتی جب پاکستان میں تعلیم بہتر ہوتی خاص طور پر سندھ میں جیسے سندھ کے ہر گاؤں میں ظلم ہے یہ کہاوت کہنے میں کتنی اچھی اور آسان ہے۔اگر یہ کہاوت سچ ہوتی تو پاکستان علم سے محروم نہیں ہوتا۔

Back to top button